ایکنا نیوز- محاسبه نفس (محاسبه اعمال) ایک اھم مسئلہ ہے اور قرآن و روایات میں اس پر کافی تاکید کی گئی ہے کہ موت کے بعد اعمال کے بناء پر انسان کی ویلیو ہوگی۔
اور یہانتک کہ معمولی ترین کام کا بدلہ دیا جائے گا : «فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَهُ• وَ مَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ« (زلزال/ 7 و 8).
البته ایسا نہیں کہ انسان منتظر رہے کہ موت آجائے تو وہ اچھے یا برے اعمال کا نتیجہ دیکھے یا اسے سزا ملے بلکہ اسی دنیا میں اعمال کا نتیجہ دیکھا جاسکتا ہے اگر غور کریں تو۔ قرآن مجید میں بھی اس پر تاکید کی گئی ہے۔
««اقْرَأْ کِتابَکَ کَفی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسیباً» (اسراء/ 14)
جو دنیا میں اپنے اعمال کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں اس چار مرحلہ طے کرنا ہوگا:
پہلا مرحله مشارطه یا شرط رکھنا ہے یعنی انسان خود سے شرط معین کرےے کہ اس دن گناہ انجام نہ دے گا۔
دوسرا مرحله مراقبت یا مراقبہ ہے کہ پورا دن متوجہ رہے کہ اس سے گناہ سرزد نہ ہو۔
تیسرا مرحله محاسبه ہے یعنی رات کو سونے سے پہلے حساب کرلے کہ اس نے دن میں گناہ انجام تو نہیں دیا ہے۔
اور چوتھا مرحلہ مواخذہ یا تنبیه کرنا ہے یعنی اگر دن میں اس سے گناہ سرزد ہوا ہے تو اس کی تلافی کرے مثلا ایک دن سزا کے طور پر روزہ رکھے یا کسی غریب کی عمدہ مدد کرے اور توبہ کرے۔
اس صورت میں اگر انسان خود پر کڑی نظر رکھے اور فیصلہ کرے تو غلط کام نہ ہو یا اگر ہو تو اسکی تلافی کرے اور مستقبل میں ایسا کرنے سے خود کو روکے۔/