مسلمان فلاسفر کی حکمت میں قرآن کی اہمیت

IQNA

مسلمان فلاسفر کی حکمت میں قرآن کی اہمیت

6:14 - March 21, 2022
خبر کا کوڈ: 3511539
تہران(ایکنا) معروف مسلم فلاسفر سهروردی جنکی نگاہ حکمت میں قرآن کی خاص اہمیت ہے

ایکنا نیوز - فلسفے کے استاد اور نجمن حکمت و فلسفہ ایران کے سابق سربراہ غلامرضا اعوانی نے نشست بعنوان «سهروردی کیوں؟»، میں حکمت اشراق یا مشرقی حکمت کے حوالے سے خطاب کیا جسکا خلاصہ حاضر خدمت ہے۔

اسلام میں تین یا چار فلسفی مکاتیب موجود ہیں جیسے یونان میں اکثر مکاتیب سقراط سے جا ملتے ہیں جنمیں مکتب مشاء، مکتب اشراق اور مکتب حکمت متعالیه ہے.

البته اگر عرفان نظری کو شامل کیا جائے تو چار مکاتیب ہوجائیں گے اور سھروردی کی اہمیت کو جاننے کے لیے انکی زندگی کو مدنظر رکھا جائے، سھروردی بارہویں صدی میں ابن رشد کے دور میں رہتے ہیں اور ان سے چالیس پچاس سال قبل، غزالی مختلف کتب کی تحریر سے جنمیں «تهافت الفلاسفه» کے زریعے سے فلسفے کی تکفیر کرتے ہیں اور عرفان کو درست راستہ قرار دیتا ہے، ابن رشد نے ارسطو کو زندہ اور ابن سینا سے مخالفت کی لہذا مغربی دنیا ابن رشد کے وارث بن جاتی ہے اور یوں مذہب حکمت سے الگ ہوجاتا ہے۔

 

 حکمت کی سرحدوں کی قیود سے رہائی

سھروردی نے یوں افکار غزالی اور ابن رشد سے نجات دی اور حکمت کو حیات نو ملی، ارسطو کا خیال تھا کہ فلسفہ یونانی ہے اور آج بھی اکثرفلسفی کتابیں یہی کہتی ہیں ، سھروردی نے ایسی کتاب تحریر کی جس کو فلسفی کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔

 

وہ حکمت اشراق کے مقدمے میں کہتا ہے کہ جو حقیقت کی تلاش میں ہوتا ہے وہ نور الھی سے مستفید ہوتا ہے وہ ارسطو کے نظریے کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ علم کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور خداوند بزرگ بخیل نہیں کہ کسی قوم کو علم سے محروم رکھے۔

 

سهروردی کی فلسفے پر گہری نظر تھی، ارسطو کے ماننے والے استدلالی فلسفے پر فوکس کرتے ہیں لیکن سھروردی کا خیال تھا کہ اس سے بڑھکر حکمت ہے جو نفس کی پاکیزگی اور زھد سے حاصل ہوتا ہے اور

«حکمت ذوقی(شهودی/علم حضوری)» کے طور پر جانا جاتا ہے. یہ حکمت یا فلسفہ عرفان کی طرح علم شهود اور حقایق پر منتج ہوتا ہے۔

 

قرآن و استدلال

انکی نگاہ میں انسان حکمت کے حصول کے لیے اگر تزکیہ نہیں کرتا تو وہ ناکام رہتا ہے اور صرف جسمانی طور پر دنیا کو ادراک کرتا ہے جب کہ سھروردی کی نظر میں جسمانی ادراکات صرف اسی جسم تک محدود نہیں اور ملکوت تک جاپہنچتا ہے، وہ کہتا ہے کہ انسان کسطرح سے غربت میں گرفتار ہوکر حکمت اور علم الھی سے بہرمند ہوتا ہے اور اس حکمت سے غربت سے نجات پیدا کرنا چاہیے اور اصل وطن کی طرف لوٹنا چاہیے جیسے کہ رسول اکرم  (ص) فرماتے ہیں: «حب الوطن من الایمان».

سھروردی کے ایک اور شاہکار میں حکمت قرآنی اور برہانی کو یکجا کرنا ہے، سھروردی نے تمام چیزوں کو حکمت کی نگاہ سے تعین کیا ہے اور اس پر قرآنی آیات سے دلائل پیش کیا ہے، انکی نگاہ میں قرآنی حکمت اور برھان ایکدوسرے کی ضد نہیں بلکہ دونوں ایک ہی حکمت کے درجات ہیں۔

شهاب‌الدین سهروردی(۱۱۵۴–۱۱۹۱ م)، جو شیخ اشراق کے نام سے معروف ہے ایران کے شہر زنجان سے تعلق رکھتا ہے جو ایرانی فلسفے کی تاریخ کا چمکتا نام ہے جنہوں نے حکمت خسروان ایران قدیم کو زندہ کردیا۔

مضامین قرآنی، عرفانی فلسفی، اخلاقی و فقه انکے محوری آثار میں شامل ہیں۔

 

4035259

نظرات بینندگان
captcha