رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعات میں ۵۳ مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں جو حالیہ عشروں کو بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
پینتیس سالہ مسلمان محمد نصیرخان جس کی ایک آنکھ فسادات میں ضائع ہوچکی ہے کا کہنا ہے کہ اب تک کسی ذمہ دار کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں عدالت کی عدم دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے اخبار کا کہنا ہے کہ بہت سے متاثرہ مسلمان پولیس کی جانب سے کارروائی سے مایوس ہوچکے ہیں۔
اگرچہ بعض لوگ اب بھی انصاف کے منتظر ہیں تاہم اکثریت کا خیال ہے کہ موجود سسٹم مودی سرکار کی زیرسرپرستی ہندو شدت پسندوں کے زیر اثر ہے جو بدمعاش ہندو جوانوں کی حمایت کررہا ہے۔
دهلی نو پولیس عام طور پر کارروائی سے پہلو تہی کررہی ہے تاہم انکا دعوی ہے کہ واقعات میں ملوث ۱۷۵۰ افراد گرفتار ہوچکے ہیں جنمیں سے نصف ہندو ہے تاہم ایک اعلی پولیس کی جانب سے لکھا خط سامنے آیا جسمیں گرفتار افراد سے نرمی کی تاکید کی گیی تھی جس پر اعتراضات شروع ہوچکے ہیں۔
اگرچہ ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل سلسلہ ہے تاہم گذشتہ برس بی جے پی رکن کاپیل میشرا (Kapil Mishra)، کی تقریر کو آگ پر تیل قرار دیا جارہا ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کیا تھا۔
رپورٹ میں لکھتا ہے کہ انکی تقریر کے بعد انکے حامیوں نے شہر کا رخ کیا اور فسادات کا سلسلہ شروع ہوا جسمیں مسلمان کے املاک اور گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔/