اسرائیل پر حملہ کیوں کیا گیا ؟

IQNA

اسرائیل پر حملہ کیوں کیا گیا ؟

13:37 - April 15, 2024
خبر کا کوڈ: 3516217
ایکنا: ایران کی طرف سے صہیونی وجود پر میزائل حملے کے بارے میں کافی ابہام اٹھایا جاتا ہے ان شکوک کی حققیت جان لیتے ہیں۔

ایران نے حملہ کیوں کیا؟

دمشق میں اس کے سفارت خانے پر حملے کے بعد اور اس نے سلامتی کونسل سے اس کی مذمت کرنے کے لیے کہا اور اسے مسترد کر دیا گیا۔ اگر مذمت کی جاتی تو صہیونی ریاست معاوضہ ادا کرنے کی پابند ہوتی اسر معافی مانگتی اور نہ دہرانے کا وعدہ کرنے کی پابند ہوتی ۔ ایران نے سلامتی کونسل سے یہ درخواست کی ہے تاکہ انہیں شرمندہ کیا جا سکے اور اگر اس کے بعد اس نے خود جواب دیا تو بھی اس صہیونی ریاست کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، اور سلامتی کونسل ایران کے خلاف کوئی فیصلہ جاری نہیں کرے گی۔

ایران نے کیوں کہا کہ وہ خود کاروائی کرنے جا رہا ہے اور اس نے اچانک پھر کاروائی نہیں کی؟

اس لیے کہ اسے پہلے اپنے عوام کو صورتحال سے روشناس کرانا اور انھیں آگاہ کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ بھی تیار ہوں، اور ساتھ ہی ایک مقبول مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے، اور ایسا ہی ہوا، اور اس لیے کہ وہ ردِ عمل کے لیے تمام شعبوں میں دفاعی طور پر تیار ہو جائیں ۔ اسے ہنگامی حالت کا اعلان کرنے اور کسی دوسرے ردعمل کے ساتھ ردعمل سے نمٹنے کے امکان کے لیے داخلی طور پر تمام قوتوں کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اسے پڑوسی ممالک کو بھی مطلع کرنا تھا کیونکہ وہ انہیں تفصیلات بتائے بغیر اگر حملہ کرے گا، اور اسکی کاروائی سے اس کے میزائل ان ممالک کی فضائی حدود سے گزریں گے، اور اگر اس کے کسی ڈرون یا میزائل نے ان ممالک کے کسی سویلین یا فوجی طیارے کو نشانہ بنایا تو یہ قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے، اور پھر اسے معاوضہ اور سیاسی نقصانات برداشت کرنا پڑیں گے، اور اس کا جواب عسکری طور پر بھی دیا جا سکتا ہے، اس لیے جب اس نے انہیں اطلاع دی تو وہ ممالک اپنی سول ایوی ایشن کو روکنے میں کامیاب ہو گئے تاکہ کوئی نقصان نہ پہنچے، اور یہ فیصلہ ایران کے طرز تفکر اور ایمان پر مبنی ہے۔  کہ اس کے میزائلوں کو معصوم شہریوں کے قتل کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

ایران نے لبنان اور شام کو کیوں استعمال نہیں کیا؟

کیونکہ ایرانی ان ممالک پر کسی بوجھ اور ان کو پریشان نہیں کرنا چاہتے اور ان کی تباہی کا باعث نہیں بننا چاہتے اور یہ استعمال ہونے والے سب ہتھیار بھی ان ممالک کی سرزمین پر اس تعداد اور طاقت میں موجود نہیں ہیں۔

ایران نے ڈرونز کا استعمال کیوں کیا جن کے پہنچنے میں گھنٹے لگتے ہیں اور اس حملے کے خلاف دشمن کے لیے تیاری کرنا آسان تھا؟

چونکہ تمام ڈرونز سست رفتار ہوتے ہیں اور جس فاصلہ پر وہ سفر کرتے ہیں وہ فاصلہ بھی زمین سے کم ہوتا ہے ، اس لیے انہوں نے ڈرونز کو دو وجوہات کی بنا پر استعمال کیا: پہلی یہ کہ بیلسٹک میزائلوں کے پہنچنے سے پہلے دشمن کے دفاعی نظام کو خالی کر دیا جائے، اور دوسرا اس لیے کہ وہ کم اونچائی پر ہوتے ہیں اور انہیں دشمن کے ریڈاروں کے لئے پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے ۔

کیا امریکہ کے ساتھ اس کاروائی پر کوئی معاہدہ ہوا ہے؟

ایران اور امریکہ دونوں کھلی جنگ نہیں چاہتے ہیں، جس کا دونوں ممالک بار بار اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اور نہ ہی بین الاقوامی قانون اور نہ ہی اس کے عوام ایران کو فقط ایک جگہ (سفارت خانے) کے بدلہ لینے کے جواب میں ایک وسیع جنگ شروع کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کہ اسقدر اور اس شدت کے ساتھ جواب دیا جائے اور ایران نے امریکہ سے کہا کہ وہ اس میں حصہ نہ لے کیونکہ ایران کی کا جوابی کاروائی ایک وسیع جنگ کے طور پر نہیں بلکہ محدود ہے، اور یہ معلوم ہے کہ بڑی طاقتیں آپس میں رابطے ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ اور روس کی یوکرین میں جنگ ہو رہی ہے لیکن ان کا تقریباً روزانہ رابطہ ہے اور امریکہ میں روسی سفارت خانہ اور اسی طرح کا چین کا مشن یہ زمہ داری ادا کرتا ہے۔ جو چین اور امریکہ کے ساتھ رابطہ کاری کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ہم آہنگی دنیا کو بڑی آفات سے بچاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں دوست ہیں۔

کیا ایران نے مختلف ممالک یا امریکہ کو کاروائی کے مقام، اور میزائلوں وغیرہ سے آگاہ کیا؟

نہیں، یقیناً یہ سب خفیہ تھا، اس لیے صہیونی ریاست نے ہر چیز کو معطل کر کے پناہ گاہوں میں داخل ہوگئی تھی۔

کیا یہ درست ہے کہ ڈرونز اور میزائلوں کو روکا گیا؟

ان میں سے کچھ میزائلوں اور ڈرونز کو فقط روکا جا سکا، کیونکہ فرانس، برطانیہ، عرب ممالک اور امریکہ سب نے جوابی کارروائی میں حصہ لیا، اور ان تمام دفاعی قوتوں کے ساتھ، بیلسٹک میزائل اسرائیل پہنچے اور نشانہ بنائے گئے فوجی اڈے اور ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا ، اور سب نے ان کے گرنے کا اعلان کیا۔ اس نے حملے کے لیے صرف دو جگہوں کی نشاندہی کی تھی، جہاں سے اس کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا، ایران محتاط ہے اور بین الاقوامی قانون کا احترام کرتا ہے تاکہ اس کے خلاف اس جوابی کارروائی کرنے کے بعد ایک بین الاقوامی اتحاد کی تشکیل نہ پا سکے ۔

کیا کوئی نقصان یا تباہی ہوئی؟

جی ہاں، ایسا ہی ہوا، کافی نقصان اور تباہی ہوئی ۔اور ان میزائلوں کا وزن 500 کلوگرام تھا ، اور وہ شخص بہت سادہ لوح ہے جو یہ توقع رکھتا ہے کہ جس جگہ پر وہ گرے اسے تباہ نہ کرے  اور اسرائیل نے اعتراف کیا کہ انکے فوجی اڈے اور ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا ۔ اور ہدف نہیں بالکل چھوڑا۔ اس بات کا اسرائیل مکمل اعتراف کرے یہ وہ بات ہے جس کی توقع صرف ایک جاہل ہی کرے گا، جیسا کہ اسرائیل نے 30 سال بعد صدام کے میزائل کا اعتراف کیا ۔ القسام نے انکے فوجیوں کی ہلاکت کا اعلان آڈیو، ویڈیو اور اعداد وشمار سے بار بار کیا، لیکن انہوں نے اسے بالکل تسلیم نہیں کیا، اور جو کچھ ہوا اسے شائع کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے، اور ایران کے پاس مضبوط انٹیلی جنس ہے اور اس نے ہلاک ہونے والے افسران کی تعداد کے ساتھ ساتھ دشمن کے طیاروں کی تباہی کا بھی اعلان کیا ہے۔

کیا ایران نے جو کچھ کیا ہے وہ قابل تعریف اور قابل فخر ہے؟

جی ہاں، بالکل قابل فخر اور قابل تعریف ہے ۔ کوئی بھی اور ملک صہیونی ریاست پر 330 ڈرونز، میزائلوں اور فوجی مقامات کے ساتھ حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتا، یہ ایک ایران کا بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ اس کے ڈرونز اور میزائل وہاں پہنچے جو عربوں کے وسط میں محفوظ ریاست سمجھی جاتی ہے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی بھی اسے ہے۔ فقط ایران ہی اس پر حملہ کرنے کے قابل تھا، اور 2000 میٹر کی دوری کے باوجود ۔ وہ اپنے اہداف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے میں کامیاب رہا اور جی پی ایس کی مداخلت کے باوجود اہداف کو نشانہ بنائے بغیر نہیں چھوڑا، اور ایران کے پاس ہائپرسونک میزائل ہیں لیکن وہ محدود ردعمل کی خاطر اپنی تمام صلاحیتوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔
یہی کافی ہے کہ امریکہ نے اپنے ردعمل سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ جواب نہیں دے گا، اور صہیونی ریاست خود ہی یہ دھچکا نگل جائے گی۔

کیا اس کاروائی نے نتن یاہو کی خدمت کی؟

نہیں، بالکل نہیں۔ وہ صرف ایک احمق شخص ہے جو بھی یہ بات کرتا ہے۔ اسرائیل  کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور تمام ممالک نے اس کا دفاع کیا، لیکن پھر بھی اب اس کی وہمی برتری کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ اس نے عربوں کو خوفزدہ کیا ہوا تھا، اس کی تاثیر زائل ہوئی ہے ۔ یہ کاروائی  7 اکتوبر کی کاروائی سے کم نہیں، اور کو کل سفارت خانے پر حملہ کرنے میں اس کی حماقت و لاپرواہی اور ایران کے ردعمل کے بارے میں اس کے غلط حساب کتاب کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

ہم نے عرب سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو اس ایرانی فوجی کاروائی کا مذاق اڑاتے ہوئے کیوں دیکھا؟

کیونکہ یہ ان عرب حکومتوں کے لیے سب سے بڑا جھٹکا ہے جو کئی دہائیوں سے ایران کو شیطانی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ کل ایران امت مسلمہ میں قومی ہیرو بن جائے گا جس سے عوام محبت کریں گے۔ کیونکہ اس نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔
آخر میں بتاوں کہ اس کامیاب اور دقیق کاروائی پر آزاد اور غیرت مند مسلمان کو فخر کر رہے ہیں۔ اور کہ رہے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست ایران  ہے جس نے مغرب کی استکباری قوتوں کو چیلنج کیا اور ان کے کمینوں کو شکست دی۔

 

بشکریہ: ڈاکٹر حمود النفالی - عمان

نظرات بینندگان
captcha